ہر یاد میں یکتا و لاشریک رہا
عشق کا ہر لمحہ اتنا شفیق رہا
ضرورتوں نے بخشی ہیں الجھنیں
جو شخص اپنے شوق میں دقیق رہا
میں نے اپنے دل میں فیاضی رکھی تھی
وہ جو دینے والا بہت غریب رہا
تیری قسمت نے تو ہمواریاں بخشی
میرا مقدر کیوں اتنا عمیق رہا
عبادتیں پھر کہاں پوچھُتی ہیں کہ
کس کس کا ارادہ تعمیل رہا
ہوتے اصوُل تو دست کشی بھی کرلیتا
مگر ان پہ خودی کا زیادہ تحویل رہا