ہمارے درمیا ن ہےجووہ دیوار گرادو
چہرے سے نقاب کومیرےیارگرادو
شکار کرنےکوتمہاری نگاہ کافی ہے
اپنے ہاتھ سے تم یہ تلوار گرا دو
آسماں پہ کالی گھٹا چھا جائے
جو زلف کو چہرے پہ ایک بارگرادو
وہ پتھربھی گیت گانے لگے
جس پہ آنسودو چار گرا دو
شاید مجھےکوئی شہنشاہ لےجائے
مجھےکسی کنویں میں سرکارگرادو
یہ نہ ہو سامعین شاعری نہ سنیں
محفل میں اتنا نہ میراوقار گرا دو