ہمراہ تجھے ساتھ اگر چلنا نہیں گوارہ
ہم کو بھی تیرے غم میں جلنا نہیں گوارہ
ہم سے آج ہی سارے قصے تمام کر لو
یوں بار بار ہم کو بھی ملنا نہیں گوارہ
کیا کرے وہ زرد پتوں کے درمیاں اکیلا
گلُ کو خزاں کی رُت میں کِھلنا نہیں گوارہ
آغاز ہی نہیں کرنا تو انجام سے کیا ڈرنا
ہار کر زندگی کی بازی ہاتھ ملنا نہیں گوارہ
تم چاہے رضا کرلو کتنی بھی اشکباری
میرے داغِ داماں کو اب دھُلنا نہیں گوارہ