ہمسفر راستوں میں دھول تو ہو
سر پہ سایہ فگن ببول تو ہو
اس میں حجت کی بات کوئی نہیں
ہاتھ اُٹھیں، دعا قبول تو ہو
وہ کہیں راہ میں ہی مل جائے
اپنے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے
اپنی حرکت پہ وہ ملول تو ہو
نخل الفت کی آرزو ہے عبث
کوئی پُر خار اک ببول تو ہو
بھول کہتے ہیں پیار کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو