تنہائی میں خود سے ہمکلام ہوئی
بچھڑنے کے خیال سے
دل لرز اُٹھا، روح کانپ اُٹھی
اور خود سے ہی بے زار ہوئی
سوچوں کا اک تسلسل تھا
اور دل کا بھرم ٹُوٹا نہ تھا
پھر آس کی ڈوری چُھوٹ گئی
اور خوشیاں ہم سے روٹھ گئیں
اے دل ناداں! تُو غم نہ کر
میں اپنے ضبط پہ حیراں ہوئی
اس سوچ میں صبح سے شام ہوئی
اور پھر سے
خود سے ہمکلام ہوئی
اب غم و اندوہ سے کیا ڈرنا
اس سوچ میں کیوں جینا مرنا
پھر خدا سے ہمکلام ہوئی
ہر راہ میری ہموار ہوئی
ہر دُعا میں اُس کو ہی مانگا
اُس کو چاہا
اُس کو سوچا
اُس کو پایا
مقبول میری دُعا ہوئی
ملن کے خیال سے، دل شاد ہوا
ہر مصلحت نہاں ہوئی