ستم ہے جاناں ہماری جاں پہ تمہارے یوں الطفات اٹھنا
کہاں گئے وہ حسین سپنے، وہ چاہتوں سے سجا ارادہ
ہمیں ستاؤ ، ہمیں بناؤ، دُکھاؤ دل کو قرین خواہش
چراغ سحری ہیں کیا خبر ہے کہ ایک پل ہیں یا کچھ زیادہ
تمہارے لب سے سُنے ہوئے وہ محبتوں کے حسین جُملے
ترس گئے ہیں کہ پھر سُاؤ جو ہوکے بانہوں میں ایستادہ
نگاہِ مستی کی لُٹ مچاؤ نہ ہوش آئے کسی طرح سے
ذرا سا پھر نیم وا سا ہو کے اُٹھا دو ہیجانِ دل زیادہ