ہم بھی چلے اُسی ڈگر دل بہلانے کا سوچ کے
جہاں کوئی ایک ہی جاتا ہے جانے کا سوچ کے
جنبش عالم میں کہیں خیال جو پھنس گیا
رات بھر سو نہ سکا کسی بہانے کا سوچ کے
میں نے سوچا جہاں بدل کے دیکھتے ہیں
مگر وہ تو نہ آ سکا زمانے کا سوچ کے
اِن بارشوں نے دامن پر بہت ستم ڈھائے
یوں لگا بھی دیتی ہیں آگ بجھانے کا سوچ کے
جہاں کئی مکانوں سے بھی لامکاں تھے لوگ
اُس سنسانی میں بیٹھ گیا ٹھکانے کا سوچ کے
اپنے آپ سے بچھڑنے کا ضد نہ تھا سنتوشؔ
کبھی تنہایاں آجاتی ہیں غم ڈھانے کا سوچ کے