زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں
کار دنیا میں وہ قاتل کو مسیحا سمجھیں
کیسے گزرے گی ترے دل پہ ذرا سوچ تو لو
تیری دنیا کو اگر ہم بھی تماشا سمجھیں
جب بھی لوٹو گے مرے پاس چلے آؤ گے
کیا تری بات کو پھر ہم یہ دلاسا سمجھیں
میرے اپنے ہیں سبھی دل میں بھڑکتے شعلے
ہم تو آتش کو ترے پیار کا تحفہ سمجھیں
وہ جو اڑتے ہیں فضاؤں میں پرندہ بن کر
کاش دھرتی پہ کسی ایک کو اپنا سمجھیں
جس نے بھی ہم کو برے وقت میں اپنا سمجھا
ہم کیوں اس ذات کو خود اپنے سے چھوٹا سمجھیں
کل جو کرتے تھے مری بات پہ ہر طرح یقیں
وہی غمخوار مجھے آج کیوں جھوٹا سمجھیں
میں نے تو پھول لگائے تھے سبھی راہوں میں
پھر بھی کچھ لوگ مجھے راہ کا کانٹا سمجھیں
آپ سمجھیں نا مرا حاصل ہے مرا رخت سفر
میرے ہمزاد کو قدرت کا کرشمہ سمجھیں
جن کو دعوی تھا محبت کی خدائی کا یوں
کاش وہ آج بھی اس وشمہ کو وشمہ سمجھیں