ہم جنوں، ہوش کے رہے ہی نہیں
نا ہی سوئے ہیں، جاگتے ہی نہیں
کچھ خلا وہ بھی تھے وجود اندر
جو کسی سینے سے بھرے ہی نہیں
تنگیِ پہلو میں کمی نہ ہوئی
ہے ندامت کہ ہم مرے ہی نہیں
ہم مکین اُس گلی کے تھے جس میں
مدتوں رہ کے بھی رہے ہی نہیں
آگ سے کچھ فراق لمحوں میں
ہم جلے ہی نہیں سڑے ہی نہیں
ہوئی ذلّت اُس آستاں پہ مگر
ہم پڑے ہی رہے اُٹھے ہی نہیں
زندگانی تھی آتشِ نمرود
ہم جلے سڑ گئے، بُجھے ہی نہیں
میری دوزخ سی گرم آنکھوں میں
خواب کس کے تھے جو گلے ہی نہیں
ہم فقیر اُس سخی کے تھے جس نے
ہم کو ٹالا بہت ٹلے ہی نہیں
تجھ تک آئے تمام قدموں میں
کچھ قدم چاہے بھی اٹھے ہی نہیں
تیرے مجنوں سُدھر گئے ہیں کیا؟
گُم ہیں اور سر بھی پھوڑتے ہی نہیں
ہر ستم کا حساب کر کے سوچ
کیا ہوئے وہ کے جو کیے ہی نہیں
تھے تقاضے کچھ اُن جوابوں کے
جو سوال لب سے بھی ہوئے ہی نہیں
جِن میں خوں کی لکیر کھینچی گئی
پل وہ لوح و قلم پے تھے ہی نہیں
جو خراش انتہاء کی سہہ سکتے
سینے وہ ہجر میں ملے ہی نہیں
ہم اُجڑنے کا عہد کر بیٹھے
کوششیں سب نے کیں، بسے ہی نہیں
خوں سے لکّھے مرے مقدر میں
ایسے غم بھی تھے جو سہے ہی نہیں
میرے تیشے سے نہرِ خُوں نکلی
یہ تو فرہاد جانتے ہی نہیں
اُن دِوانوں کو بھی کریں تسلیم
جنہیں پتّھر کبھی لگے ہی نہیں
یوں تو کتنے ہی دوست تھے میرے
پر وہ ایسے تھے جیسے تھے ہی نہیں
جیتے جی ایسا ہم کو مارا گیا
موت بھی تھک گئی مرے ہی نہیں
کس طرح ایک ہو سکیں کہ کبھی
آسمان و زمیں ملے ہی نہیں
کاش ہوتے تُم اُس زمانے میں
جب میّسر نقاب تھے ہی نہیں
یاراں ہم عشق کے سمندر میں
ایسے ڈوبے نکل سکے ہی نہیں
تیری بانہوں میں ایسی نیند آئی
حشر تک سو گئے اُٹھے ہی نہیں
جانے ماضی نے کیا کیا اُن کا
جن کو بھولے سے سوچتے ہی نہیں
شکر کر تجھ کو کر دیا آزاد
ہم کسی کو یُوں چھوڑتے ہی نہیں
میری تو خیر ہے خفا ہوں میں
تم بتاؤ کیوں بولتے ہی نہیں
کون سے عہد؟ کیا وفا؟ کیا عشق؟
ہم تو اِک دُوسرے کے تھے ہی نہیں
زندگانی کے گُھپ اندھیروں میں
دپپ اُمید کے جلے ہی نہیں
وہ ہماری خطا تھی چاہ بیٹھے
ورنہ لائق تم اِس کے تھے ہی نہیں
آپ اپنا اُدھار دے دے مجھے
واپسی میں کبھی بھی لے ہی نہیں
کیسی حیرت میں گُم ہیں سارے لوگ
ظلم سہہ کر بھی چیختے ہی نہیں
جاں ترے آستاں سے جو بھی پِھرے
ہیں بھی یا مر گئے دکھے ہی نہیں
اِس طرح قیس رستے روند گیا
دشت میں نقش تک بچے ہی نہیں
جانے سب کو کیا ہو گیا ہے جنیدؔ
اب مجھے لوگ ٹوکتے ہی نہیں