ہم سارے زمانے کی خبر ڈھونڈ رہے ہیں
وہ حاشیہ پیمائی میں در ڈھونڈ رہے ہیں
روپوش ہے تو اپنی کہانی کی زمیں میں
سب تیرے خیالوں کی خبر ڈھونڈ رہے ہیں
جب اپنی کسی بات سے مایوس نہیں ہیں
پھر کیوں وہ کسی غیر کا در ڈھونڈ رہے ہیں
دریاؤں سے گزرے ہیں کئی بار مگر اب
یادوں کے سمندر میں سفر ڈھونڈ رہے ہیں
ملتا ہی نہیں ہم کو ترے پیار کا منظر
اس بار مگر بارِ دگر ڈھونڈ رہے ہیں
شاید وہ کسی روز مری سوچ میں اترے
اس شخص کو مدت سے اگر ڈھونڈ رہے ہیں
افلاک میں کھو کر کبھی واپس نہیں لوٹی
تارں پہ جو ڈالی تھی نظر ڈھونڈ رہے ہیں
وہ صبح کے بھولے ہوئے لوٹ آئیں گے وشمہ
ہم کب سے کھڑے راہ گزر ڈھونڈ رہے ہیں