ہمسفر مانگا تھا میں نے اک سفر کے واسطے
چھوڑ کے رہ میں دیا چل عمر بھر کے واسطے
سوچتی چاہے جو دنیا ہی رہے اس میں ہے کیا
میں تو لایا تھا اسے اپنے ہی گھر کے واسطے
آئے گا اک دن نظر کے سامنے مل لوں گا میں
روز کرتا ہوں سفر جانِ جگر کے واسطے
روز کرتا ہوں ارادہ اس کو ملنے کا مگر
لوٹتا ہوں اس لیے ہی میں تو ڈر کے واسطے
زندگی ساری گنوا دی ہجر جاناں میں مگر
کچھ بچا باقی نہیں ہے اب قبر کے واسطے
دیکھتا ہوں اس لیے شہزاد اس کو روز میں
دل کو ہوتی ہے تسلی اک نظر کے واسطے