کر کر کے انتظار زمانے گزر گئے
ہم سے بچھڑ کے آپ نہ جانے کدھر گئے
پھر سے ستانے آ یا ہے موسم بہار کا
پھر سے غمِ حیات کے چہرے نکھر گئے
ویسے تو اُنکی مستَ نگاہوں کا تھا قصور
الزام سو طرح کے مگر میرے سرَ گئے
کچھ یار دوست اپنے ہی عمال کے سبب
یا دل میں بسَ گئے ، یا نظر سے اُ تر گئے
انور جی اب خدا کے لئے گھر کو جائیے
یہ چاند ، یہ ستارے ، سبھی اپنے گھر گئے