ہم نے توحید کا پرچم اٹھایا ہوا ہے
ظلم کے سامنے سر کو نہ جھکایا ہوا ہے
ہم وہ وارث ہیں جو حق بات کہہ سکتے ہیں
باطلوں کا ہر اک فتنہ مٹایا ہوا ہے
ہم وہ ملت ہیں جو طوفاں میں بھی بہتی نہیں
اپنی غیرت کسی قیمت پہ بھی بیچتی نہیں
جو بھی آئے ہمیں زنجیر میں جکڑنے کو
ہم وہ، جو صدیوں سے روایت میں بھی جھکتی نہیں
ہم وہ احرار ہیں، زنجیر پگھلا دیں گے
ظلم کے قلعے کو یکدم ہی گرا دیں گے
جبر کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتے
ہم جو چاہیں گے، تقدیر میں لا دیں گے
یہ زمینیں بھی ہماری ہیں، فلک بھی اپنا
ہم پہ حاکم نہیں دنیا کا کوئی سپنا
کوئی غاصب ہمیں جکڑ نہیں سکتا ہرگز
ہم نے توڑا ہے غلامی کا وہی طوق اپنا
ہم وہ سورج ہیں جو مشرق سے نکلتے ہیں
ہم وہ کُہسار ہیں جو صدیوں سے پلتے ہیں
ہم وہ دریا ہیں جو موجوں سے الجھ جاتے ہیں
ہم وہ طوفاں ہیں جو طوفاں سے بھی لڑ جاتے ہیں
ہم کو جینا ہے، مگر ہاتھ باندھے ہوئے نہیں
کوئی تھوپے گا جو زنجیر، ہم سہنے والے نہیں
ہاتھ میں حریتِ فکر کا پرچم لے کر
ہم کسی طور پہ رستے سے ہٹنے والے نہیں
چاہے صحراؤں میں رستہ ہمیں روکے کوئی
چاہے دریا کی روانی ہمیں بہکا دے کوئی
ہم وہ ملت ہیں جو دشوار مسافت لے کر
ظلم کے تخت کو ملبے میں بدل دے کوئی
ہم وہی لوگ ہیں، بدر و حنین دیکھے ہیں
وقت کے جبر میں حق کے سفینے دیکھے ہیں
ہم نے تاریخ کے صفحات پلٹ ڈالے ہیں
ہم نے ہر دور میں باطل کے نگینے دیکھے ہیں
ہم وہ جاں باز ہیں جو جھک نہیں سکتے کبھی
ہم وہ شمشیر ہیں جو رک نہیں سکتے کبھی
ہم نے سیکھا ہے وفا کا ہر اک دستور
ہم وہ آندھی ہیں جو تھم نہیں سکتے کبھی
یہ جو زنجیر کے قصے ہمیں سناتے ہیں
یہ جو آزادی کے بدلے ہمیں بہکاتے ہیں
یہ جو کہتے ہیں کہ تم صرف پرندے ہو بس
یہ ہمیں قید میں رکھنے کے خواب پالتے ہیں
ہم وہ پرچم ہیں جو آندھی میں بھی گرتے نہیں
ہم وہ فانوس ہیں جو طوفان میں بجھتے نہیں
ہم وہ جذبات ہیں، ہم روشنی کی کرن
ہم وہ نعرے ہیں جو ظلمت میں بھی مرتے نہیں
کوئی بازار میں بیچے نہ ہمیں داموں پر
کوئی قیدی نہ بنا لے ہمیں الزاموں پر
ہم وہ خوددار، ہم آزادی کے پروانے
ہم وہ مجرم نہیں، بکتے نہیں انعاموں پر
ہم وہ امت ہیں جو ہر بار ابھرتی ہے
کبھی مسجد، کبھی میدان میں بکھرتی ہے
یہ جو زنجیر ہمیں ڈالنے آتے ہیں یہاں
ہم وہ شمشیر ہیں جو خود راہ بناتی ہے
ہم نے ماضی میں غلامی کی فضا دیکھی ہے
ہم نے فرعون کی طاقت بھی فنا دیکھی ہے
ہم وہی قوم ہیں، جو وقت کے طوفانوں میں
سینکڑوں بار، مگر فخر سے جاگی ہے
اب نہ جھکنے دیں گے ہم سر کبھی باطل کے تلے
اب نہ بِکنے دیں گے غیرت کسی محفل کے تلے
یہ جو غدار ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے
ان کو بخشیں گے نہ میدان میں، ساحل کے تلے
ہم نے سچائی کے رستے کو پکڑ رکھا ہے
ہم نے ہمت کی شمعوں کو جلا رکھا ہے
جو ہمیں قید میں رکھنے کے ارادے رکھے
ہم نے ان ہاتھوں سے خنجر کو گرا رکھا ہے
جو ہمیں زخم دیے، ان سے حساب ہوگا
اب ہر اک ظالم کا احتساب ہوگا
ہم نے سیکھا ہے ہر اک سازش کا توڑ
اب غلامی کے ہر خوابوں کا حساب ہوگا
اب نہ طوق و سلاسل ہمیں روکیں گے کبھی
اب نہ زندان کے قفل ہمیں توڑیں گے کبھی
ہم نے ٹھان لی ہے دنیا کو دکھانے کے لیے
اب یہ لمحے ہمیں پھر سے نہ جھکائیں گے کبھی
آج ہم پھر سے یہ دنیا کو جتا دیتے ہیں
اپنے پرچم کو فضا میں ہی اٹھا دیتے ہیں
ہم وہ ملت ہیں جو بکتی نہیں، جھکتی نہیں
ہم جو چاہیں تو زمانے کو ہلا دیتے ہیں
ہم نے تاریخ کی دیوار پہ لکھ رکھا ہے
اپنے اجداد کی تعلیم کو رٹ رکھا ہے
ہم وہ امت ہیں جو قیدوں کو مٹا سکتی ہے
ہر غلامی کے اندھیروں کو جلا سکتی ہے
اے خدا! ہم کو غلامی سے بچا لے مولا
ہم کو سچائی کی روشنی دکھا دے مولا
جو بھی بیچتا ہے ضمیر اپنا زمانے کے لیے
اس کے دل میں تو بصیرت کو جگا دے مولا
اے خدا! شایانؔ کی بس یہ دعا ہے تجھ سے
ہم کو حُرّیتِ ایماں کی عطا دے دعا ہے تجھ سے
ہم وہ خوشبو بنیں، بکھریں فضا میں دعا ہے تجھ سے
ہم کبھی ظلم کے سانچوں میں نہ ڈھل پائیں دعا ہے تجھ سے۔