ہم نے قسمت کے مخالف جو اشارے دیکھے
دوست اک پل میں بدلتے ہوئے سارے دیکھے
وہ جو ہر گام پہ ہمراہ چلا کرتے تھے
ٹوٹتے ایسے کئی ہم نے سہارے دیکھے
ہم نے خود چھیڑ لیا روح کے سب زخموں کو
اب بھلا کس سے کہیں درد ہمارے دیکھے
تم نے اک ہجر گزارا تو اُسے پا ہی لیا
ہم نے ہر بار محبت میں خسارے دیکھے
اپنی آنکھوں سے کروں پیار کہ ان میں اکثر
عکس لہراتے ہوئے ہم نے تمہارے دیکھے
آج بھی دل میں چمکتے ہیں ستارے بن کر
جو بھی آنکھوں نے مدینے میں نظارے دیکھے
اب کے برسات میں وہ جوش میں آیا دریا
ہم نے پانی میں کئی بار کنارے دیکھے
ساتھ جب اُس کا ملا تھا تو سفر میں گوہر
ہم نے ہمراہ کئی چلتے ستارے دیکھے