ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوئے پیمانۂ عشق
Poet: آغا حجو شرف By: Zamin, Karachiہم ہیں اے یار چڑھائے ہوئے پیمانۂ عشق
ترے متوالے ہیں مشہور ہیں مستانۂ عشق
دشمنوں میں بھی رہا ربط محبت برسوں
خوش نہ آیا کسی معشوق کو یارانۂ عشق
مجھ کو جو چاہ محبت کی ہے مجنوں کو کہاں
اس کو لیلیٰ ہی کا سودا ہے میں دیوانۂ عشق
جان لیں گے کہ وہ دل لیں گے جنہیں چاہا ہے
دیکھیے کرتے ہیں کیا آ کے وہ جرمانۂ عشق
جا بہ جا چاہنے والوں کا جو مجمع دیکھا
کوچۂ یار کو سمجھا میں جلو خانۂ عشق
سالہا سال سے خوش باش جو ہوں صحرا میں
عالم ہو کو سمجھتا ہوں میں ویرانۂ عشق
دل پسا چاہتا ہے جا کے حنا پر اس کی
خرمن حسن ہوا چاہتا ہے دانۂ عشق
دل کا ہے قصد تری بزم میں اڑ کر جاؤں
کیا ہی بے پر کی اڑاتا ہے یہ پروانۂ عشق
ہر پری زاد کی ہے جلوہ نما اک تصویر
شیشۂ دل ہے ہمارا کہ پری خانۂ عشق
دل مرا خاص مکاں ہے جو تری الفت کا
کہتی ہے ساری خدائی اسے کاشانۂ عشق
کون کس کا شب معراج میں ہوگا معشوق
کی ہے کس شوخ نے یہ محفل شاہانۂ عشق
تو کرے ناز تجھے یار زمانہ چاہے
تا ابد یہ رہے آباد ترا خانۂ عشق
اس پری رو نے جو دیکھا مرے دل کو صدچاک
اپنی زلفوں میں کیا نام ہوا شانۂ عشق
عالم نور تری شکل کا پروانہ ہے
حسن کی جان ہے تو اور ہے جانانۂ عشق
سر بکف گنج شہیداں میں چلے جاتے ہیں
امتحاں سے نہیں ڈرتے ترے فرزانۂ عشق
نزع میں سورۂ یوسف کوئی للہ پڑھے
دم بھی نکلے تو مروں سن کے میں افسانۂ عشق
ڈبڈبائیں مری آنکھیں تو وہ کیا کہتے ہیں
دیکھو لبریز ہیں چھلکیں گے یہ پیمانۂ عشق
اے شرفؔ کون مرے دل کے مقابل ہوگا
اک یہی ساری خدائی میں ہے مردانۂ عشق
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






