ہنساتا ہے مجھے پھر وہنسا کر جب رلاتا ہے
ہزاروں پھول پھر خود ہی کہیں سے توڑ لاتا ہے
مجھے بانہوں میں بھر کر زندگی کے نام پر شاہد
سرورِ عشق کی آتش میں جسم و جاں جلاتا ہے
مرا ساتھی مرا دلبر مرے ہر خواب کا محور
شعور آگہی دے کر حسیں غزلیں لکھاتا ہے
مرے ارماں مری چاہت تخیل ہی تو ہے جاناں
یہ زندانِ حیاتی میں مجھے مجھ سے ملاتا ہے
دلِ وشمہ کی دھڑکن سے بنا کر اک حسیں گجرا
مرے بالوں میں چاہت سے مرا جانم سجاتا ہے