ہواؤں کے حشر میں وہ زلف لہرائے بیٹھ گیا
دوُر کسی منظر سے کوئی آنکھ لڑائے بیٹھ گیا
تدبیریں بنتی ہیں تقدیروں سے کہیں کہیں
میں تصور کے خاکے بنائے ڈھائے بیٹھ گیا
نینوں کی تشنگی میں کچھ بھی بھٹکے مگر
جو آنسو میرا تھا مجھے رُلائے بیٹھ گیا
الجھن کی کروٹ میں خمار یہ کیسا ہے کہ
ہر خلوت کو یونہی اپنا بھائے بیٹھ گیا
اِس قیام زندگی کے سنتوشؔ قریب رہ کر
اُبھرا جو خیال میرا جی چرائے بیٹھ گیا