ہوائیں آج کیوں نغمے ترے مجھ کو سناتی ہیں
فضائیں دل میں طوفان محبت پھر اٹھاتی ہیں
یہ بھیگی سی ہوا ، مہکی فضا یہ چاندنی راتیں
نہ جانے کیوں تمھاری یاد سینے میں جگاتی ہیں
اٹھیں لہریں سی پانی میں ، بجی سرگم خموشی میں
یہ رم جھم کی صدائیں گیت بن کے دل لبھاتی ہیں
نہ آؤ تم خیالوں میں تو دن ڈوبیں اندھیروں میں
جو آتی ہو تصور میں تو راتیں جگمگاتی ہیں
مجھے ان سے نہیں شکوہ ، شکایت ہے تو بس اتنی
ہوائیں کیوں ترے مکھڑے کو آنچل میں چھپاتی ہیں
یہ نازک سی کلی کھوئی ہوئی ہے کن خیالوں میں
اسے بھی کیا تری یادیں بہاروں میں ستاتی ہیں
یہ موسم پھر نہ آئے گا ، نہ ایسا ہی سماں ہو گا
چلے آؤ کہ اب تم کو فضائیں بھی بلاتی ہیں