ہوا سے دھند کا جیسے حصار ٹوٹتا ہے
Poet: ضمیر قیس By: نعمان علی, Quettaہوا سے دھند کا جیسے حصار ٹوٹتا ہے
یہ زعم ِ دل بھی سر ِ کوۓ یار ٹوٹتا ہے
کبھی کبھی مجھے ہوتی ہے دشمنوں کی طلب
کبھی کبھی تو کوئی اعتبار ٹوٹتا ہے
وہیں پہ آنکھ خیالوں کو گانٹھ دیتی ہے
جہاں پہ خواب کے آنچل کا تار ٹوٹتا ہے
اسے کہو کہ بدن کو سمیٹ کر سوۓ
کہ ضبط ِ گردش ِ لیل و نہار ٹوٹتا ہے
رقابتوں کا تسلسل ہو جیسے اب یہ حیات
میں پھول شاخ سے کھینچوں تو خار ٹوٹتا ہے
پھر اک سرے سے میں گِنتا ہوں اپنی وحشت کو
ستارہ پھر کوئی زیر ِ شمار ٹوٹتا ہے
کسی کے ہجر کو سولی اگر چڑھاتے ہیں
ستون گرتے ہیں افسون دار ٹوٹتا ہے
ستم تو یہ ہے کہ نکلیں ، جو دشت ِ حبس سے ہم
عذاب ِ گرد تو کرب ِ غبار ٹوٹتا ہے
اسے نہ جوڑ سکے گا وصال ِ صبح کوئی
وہ آئینہ جو شب ِ انتظار ٹوٹتا ہے
کہاں تلک کوئی پیوند کاریاں جھیلے
یہ حوصلہ ہے میاں بار بار ٹوٹتا ہے
ہے دل کے کمرے میں آسیب کوئی یادوں کا
کواڑ کھلتے ہیں شیشے کا جار ٹوٹتا ہے
وہ حال پوچھ لے تو درد کوچ کر جائیں
وہ ہاتھ نبض پہ رکھ دے بخار ٹوٹتا ہے
اس ارتکاز کو کہتے ہیں مئے کشی شاید؟
پلک بھی جھپکے کوئی تو خمار ٹوٹتا ہے
عجب سیاسی مسائل کا سامنا ہے ضمیر
عدو کو ساتھ ملاؤں تو یار ٹوٹتا ہے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






