ہوا نے رخ یہ کیسے پھیرے ہیں
دلوں میں نفرتوں کے ڈیرے ہیں
ہم نے شاخ وفا کو زخمی دیکھا
شجر یہ چاہتوں کے کس نے اکھیڑے ہیں
پہلے راہزنوں نے گھیرا تھا
اب راہبروں کے گھیرے ہیں
خود غرضوں کا یہ شیوا ہے
میرے سامنے میرے تیرے سامنے تیرے ہیں
دلوں کے بھید اب تو سمجھنا مشکل
اک چہرے پہ سجے نت نئے چہرے ہیں
دل میں بغض لب پہ وفا کی باتیں ہیں
منافقوں کی بستی میں شائد اپنے ڈیرے ہیں
آؤ تو رضی ڈھونڈنے نکلیں
کہاں کھو گئے سویرے ہیں