ہو تکلف ہی مگر لب پہ کوئی بات تو ہو
اجنبی بن کے سہی ان سے ملاقات تو ہو
پوچھ لوں آج کوئی دل میں چھپی بات مگر
تیرے ہونٹوں پہ ذرا جنبش اثبات تو ہو
کیسے اس رات کو میں ہجر کی اک رات کہوں
دل میں کچھ درد تو ہو ، آنکھوں مییں برسات تو ہو
منصفانہ ہے کہاں پیسے کی تقسیم یہاں
سب کو تھوڑا ہی ملے اس میں مساوات تو ہو
مل ہی جائے گی کبھی منزل مقصود انھیں
شرط اتنی سی ہے چلنے کی شروعات تو ہو
غیر کو شیریں زباں اپنا بنا لیتے ہیں
ہو کے رہتا ہے اثر گرمئی جزبات تو ہو
بے گناہی کا مری اس کو یقیں آ جائے
کاش منصف مرا کچھ واقف حالات تو ہو
اس کے شعروں میں اتر آئے گا آہنگ غزل
میر و غالب کی طرح خوگر صدمات تو ہو