دید اک التزام ہو جیسے
محویت صبح و شام ہو جیسے
سارے پہلو میں دخل ہے اسکا
زیست اسکے ہی نام ہو جیسے
کسک جاتی نہیں کسی لمحے
قصہء نا تمام ہو جیسے
جلترنگ سا سنائی دیتا ہے
مجھ سے وہ ہم کلام ہو جیسے
اسکے لب سے جو پھوٹ کر نکلے
مسکراہٹ انعام ہو جیسے
بات سنتا ہے یوں توجہ سے
دل یہ اسکا غلام ہو جیسے
اسکی رعنائیوں کا ذکر ہی کیا
شوخ رت بے لگام ہو جیسے
روز جاتے ہیں اہتمام کے ساتھ
اسکا در فیض عام ہو جیسے
مست طاہر ہے کن خیالوں میں
جذب میں بے انام ہو جیسے