ہو رہے ہیں دیڑے دیڑے راز عیاں
وہ میری زندگی میں بس مہمان بنا
میں نے جسکو سمجھا خوراک سانسوں کی
وہ میری موت کا ہی سامان بنا
عشق کو قطرہ سمجھ کے پی مَیں گیا
اَنا میں پھر لبوں کو سی مَیں گیا
حباب عشق کا دل میں جا کے پھر
اِک زبردست ، خوفناک طوفان بنا
میرے وجود میں بھی اِک سینہ ہے
سینے میں میرے اِک دل دھڑکتا ہے
کیوں دیئے درد میری دل کو بتا
مَیں بھلا ترے لئے کیا نقصان بنا
چومتا رہتا ہوں اب مَیں رومال ترا
لو ہوا تباہ دیکھ لو نہالؔ ترا
رات ساری مَیں نہ سویا پل بھر
پھر کہیں جا کے ایک آدھ دیوان مَیں