ہیں سردیاں پلٹنے کو اب تم بھی پلٹنے کا سوچو

Poet: طارق اقبال حاویؔ By: Tariq Iqbal Haavi, Lahore

ہیں سردیاں پلٹنے کو
اب تم بھی پلٹنے کا سوچو

تنہا گزرے کتنے موسم
تم لوٹے نہ میرے ھمدم

جن پر ھم سنگ سنگ چلتے تھے
وہ راہیں ادھوری ھیں جاناں

والہانہ لپٹنے کو تم سے۔۔۔
میری بانہیں ادھوری ھیں جاناں

میری آنکھیں رستہ تکتی ہیں
اب پتھر بھی ہو سکتی ہیں

اب اِتنا مجھے ستاٶ نہ
تم جلدی لوٹ کے آٶ نا

ہیں سردیاں پلٹنے کو
اب تم بھی پلٹنے کا سوچو
 

Rate it:
Views: 1886
01 Nov, 2021