ہے عشق یہ کیا جانا مجھے بھی تو بتا کر
ہر کشتی یہ ہجرت کی چلے آؤ جلا کر
آنے لگیں پیچھے مرے کلیوں کی صدائیں
نکلی ہی تھی میں ہاتھ جو خوشبو سے ملا کر
اس گلشنِ دنیا میں شگفتہ نہ ہوا دل
ہو خاک سرِ راہ محبت میں دعا کر
لگتا ہے کہ لے جائے گی پھر درد نگر میں
یہ شام مجھے اپنے ہی سائے میں چھپا کر
اک عمر گزاری ہے ترے ہجر میں تنہا
ہونٹوں کے کناروں پہ ترا نام سجا کر
شاخوں پہ تھا چاہت کے پرندوں کا ٹھکانہ
کیا تجھ کو ملا آج مرے دل سے اڑا کر
قندیل وفا بن کے سلگتی رہی وشمہ
اک شمع محبت تری راہوں میں جلا کر