ہے ہر طرف ہی خطرہ سو جدھر بھی جا خیال کر
یہ شہر ہے رقیبوں کا قدم اُٹھا سنبھال کر
تری خموشی کہہ رہی ہے کچھ نہ کچھ تو بات ہے
میں آج تیرے روبرو ہوں جو بھی ہو سوال کر
نہ بند اپنے چہرے کو کر اتنے تو حجابوں میں
اے یار اپنے یار کا تو کچھ تو اب خیال کر
تو بخش اپنے گیت کو نئی سی ایک دھن فقط
مزار کے فقیر عشق میں اُتر دھمال کر
خدا ہمارے حصے میں مزید غم اتار دے
ہمارے ضبط کو ابھار تو سخن میں دال کر
ہے کیا جو شہد و شیر سے بھی میٹھا اس زمین پر
پتہ لگانا ہے مجھے تو آگے اپنے گال کر
حیاتِ مختصر کے قصے کو بنا دے خوب تر
وگرنہ اس حیات میں یہ خود کشی حلال کر
کبھی ہماری غم کی شام کو بنا حسین تو
اے اکبرؔ اپنے دوست کو غزل سنا تو کال کر