ہے ہر طرف ہی خطرہ

Poet: علی اکبر By: علی اکبر, Karachi

ہے ہر طرف ہی خطرہ سو جدھر بھی جا خیال کر
یہ شہر ہے رقیبوں کا قدم اُٹھا سنبھال کر

تری خموشی کہہ رہی ہے کچھ نہ کچھ تو بات ہے
میں آج تیرے روبرو ہوں جو بھی ہو سوال کر

نہ بند اپنے چہرے کو کر اتنے تو حجابوں میں
اے یار اپنے یار کا تو کچھ تو اب خیال کر

تو بخش اپنے گیت کو نئی سی ایک دھن فقط
مزار کے فقیر عشق میں اُتر دھمال کر

خدا ہمارے حصے میں مزید غم اتار دے
ہمارے ضبط کو ابھار تو سخن میں دال کر

ہے کیا جو شہد و شیر سے بھی میٹھا اس زمین پر
پتہ لگانا ہے مجھے تو آگے اپنے گال کر

حیاتِ مختصر کے قصے کو بنا دے خوب تر
وگرنہ اس حیات میں یہ خود کشی حلال کر

کبھی ہماری غم کی شام کو بنا حسین تو
اے اکبرؔ اپنے دوست کو غزل سنا تو کال کر

Rate it:
Views: 299
20 Feb, 2023
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL