یادوں کی رات سہانی کب ختم ہوتی ہے

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

یادوں کی رات سہانی کب ختم ہوتی ہے
اپنی یہ حالت الہامی کب ختم ہوتی ہے

کوئی پھول بھیجتا ہے تو کوئی اصول اپنے
جہاں دستوُر کی جاودانی کب ختم ہوتی ہے

اُس نے خود سجاکر آنکھ میں نمی جو ڈالی
دیکھئے کوچہ گردوں کی کہانی کب ختم ہوتی ہے

شب سے تھک کر تو تسکین کو سوچا مگر
انہیں خوابوں کی نگہبانی کب ختم ہوتی ہے

مَرکے بھی مسافر کو کہیں مات نہ آئی
ان نینوں کی سلامی کب ختم ہوتی ہے

جہاں چاہ نہیں وہاں راہ نہیں سنتوشؔ
ان حسرتوں کی غلامی کب ختم ہوتی ہے

 

Rate it:
Views: 472
06 Feb, 2011