مجھے اب تیرے وہ مبہم اشارے یاد آتے ہیں
ترے ہمراہ جتنے پل گزارے یاد آتے ہیں
کہاں آسان ہوتا ہے کسی کو یوں بھلا دینا
جو مل کے خواب دیکھے ہوں وہ سارے یاد آتے ہیں
تمہاری جھیل سی آنکھیں مجھے سونے نہیں دیتیں
وہ ان میں جگمگاتے چاند تارے یاد آتے ہیں
گزرتے ہیں مرے دن رات بیتے کل کے قصوں میں
حسیں خوابوں میں ڈوبے دن ہمارے یاد آتے ہیں
میں تنہا جب بھی ہوتا ہوں حسیں بارش کے موسم میں
مجھے اس پل سبھی وعدے تمہارے یاد آتے ہیں
بچھڑتے وقت اس کی آنکھ میں بھی کچھ نمی سی تھی
مری آنکھوں سے اشکوں کے وہ دھارے یاد آتے ہیں
کسی کو ٹوٹ کر یوں چاہنا اچھا نہیں یاسر
جو آئے درمیاں دوری تو پیارے یاد آتے ہیں