آج پھر سے مجھ کو ستا گئی ہے یاد تیری
دل کو میرے تڑپا گئی ہے یاد تیری
بے چھینی میں مجھ کو دوبا گئی یاد تیری
مجھے بے سکوں سا کر گئی ہے یاد تیری
مجھ ک و فقروں میں الجھا گئی ہے، یاد تیری
تیرے زکروں میں الجھا گئی ہے یاد تیری
بھول بیٹھا ہوں سب کچھ ہی بھلا گئی ہے یاد تیری
جزباتوں کو میرے، جلا گئی ہے یاد تیری
اک آواز سننے کی پیاس لگا گئی ہے ، یاد تیری
اک جھلک دیکھنے تیری،مجھ کو آس لگا گی ہے یاد تیری
کچھ تو احساس ملال جگا گئی ہے یاد تیری
رلا کہ بھی ندامت کا روگ لگا گئی ہے یاد تیری
چلو مانا مجبوری بھی ہے تمہاری،سمجا گئی ہے ، یاد تیری
دور جانا بھی ہے ضروری کچھ، جتا گئی ہے یاد تیری
مگر احمد کے دل ناداں کو کو بھی جلا گئ ہے یاد تیری