یاد رکھنا کہ جدھر اُن کا اشارا جاۓ
سَر وہیں میرا سناں پر سے اُتارا جاۓ
اِس سے بڑھ کر نہیں مل سکتا بڑا نام ہمیں
مقتلوں میں جو لکھا نام ہمارا جاۓ
میری خواہش نہیں جھک جھک کے مجھے لوگ ملیں
اپنی اوقات سے ہی مجھ کو پکارا جاۓ
یہ غمِ ہجر مری جان نہ لے جاۓ کہیں
بس یہی بوجھ مرے سَر سے اُتارا جاۓ
مفلسی ایسی کہ مرنے کو بھی سامان نہیں
زندگی تجھ کو بتا کیسے گزارا جاۓ
تُو مرے ساتھ نہیں ہوتا تو یوں لگتا ہے
ماند پڑتا مری قسمت کا ستارا جاۓ
شہرِ یزداں میں جسے شوق ہے حق گوئی کا
عین ممکن ہے کسی روز وہ مارا جاۓ
حسن والے تو ہزاروں ہیں جہاں میں باقرؔ
پر یہ دل ہے کہ اسی شخص پہ ہارا جاۓ