اغیار کو سمجھی تو ہمیں یاد کرو گی
تم پیار کو سمجھی تو ہمیں یاد کرو گی
تمھیں سامنے پا کر بھی
تمھیں دیکھنے کی حسرت
اعتبار کو سمجھی تو ہمیں یاد کرو گی
میری آنکھوں میں سُرخی
کیسی ہے مت پوچھو
انتظار کو سمجھی تو ہمیں یاد کرو گی
نہیں ہر کسی کے بس میں
یوں بے بسی میں ہنسنا
کبھی ہار کو سمجھی تو ہمیں یاد کرو گی
بے وزن لگ رہی ہیں
ابھی حاوی کی جو باتیں
اشعار کو سمجھی تو ہمیں یاد کرو گی
(طارق اقبال حاوی)