لوح دل سے میں ترا نام مٹانا ہوگا
کیسے بچھڑے تھے زمانے کو بتانا ہوگا
آج بیساختہ اترا ہے تُو آنسو بن کر
یاد کی آنکھ میں اب تجھ کو بٹھانا ہوگا
میں بھی انسان ہوں، دل میں ہیں غموں کے چشمے
آنکھ میں درد کی یہ جھیل چھپانا ہوگا
یہ مجھے دیکھنے دیتا ہی نہیں اور طرف
اپنی آنکھوں سے ترا عکس ہٹانا ہوگا
فلسفہ میں نے محبت کا ہے سمجھا لیکن
اپنی چاہت کو تری ہیر بنانا ہوگا
ہوسکے تجھ سے تو، سب کچھ تُو مٹا دے وشمہ
اپنی تقدیر کو خود آپ مٹانا ہوگا