یوں بڑی دیر سے پیمانہ لیے بیٹھا ہوں
کوئی دیکھے تو یہ سمجھے کہ پئے بیٹھا ہوں
آخری ناؤ نہ آئی تو کہاں جاؤں گا
شام سے پار اترنے کے لیے بیٹھا ہوں
مجھ کو معلوم ہے سچ زہر لگے ہے سب کو
بول سکتا ہوں مگر ہونٹ سیے بیٹھا ہوں
لوگ بھی اب مرے دروازے پہ کم آتے ہیں
میں بھی کچھ سوچ کے زنجیر دیے بیٹھا ہوں
زندگی بھر کے لیے روٹھ کے جانے والے
میں ابھی تک تری تصویر لیے بیٹھا ہوں
کم سے کم ریت سے آنکھیں تو بچیں گی قیصرؔ
میں ہواؤں کی طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہوں