یوں بھی کب اس سے رابطہ نکلا
وہ تو اچھا تھا میں برا نکلا
قافلے راہ میں لوٹنے والا
راہ زن ایک رہ نما نکلا
یوں ہی شکوہ ہے مجھ کو دریا سے
میرا دشمن تو ناخدا نکلا
پہلے پہلے تو با وفا تھا مگر
آخر وہ بھی بے وفا نکلا
جس کے دم سے تھیں رونقیں تنہا
آج محفل سے دور جا نکلا