یوں عطاؤں کی مولیٰ بارش کر
میرے من میں نہ باقی خواہش کر
تنگ دستی کو میں مٹا ڈالوں
رزق میں میرے یوں کشایش کر
حکمراں تجھ کو دے دعا ہر اک
اس طرح کی بھی کوئ دانش کر
وہ مجھے بھول ہی نہیں سکتا
اے رقیبا تُو جتنی سازش کر
اے مرے دل تُو پہلے زخمی ہے
پھر محبت کی تُو نہ خواہش کر
ایک مدت سے دید ہی نہیں دی
مت فقیروں کی یوں ستائش کر
عمر بھر تیرے گیت گاۓ ہیں
کچھ تو مقبول میری کاوش کر
تُو جو مزدور ہے انا میں رہ
مت امیروں کے بوٹ پالش کر
کون مطلب پرست ہے باقرؔ
سارے اپنوں کی آزمائش کر