یوں نہ اپنے آپ ہی سب راستے تبدیل کر
جو بھی دے محبوب تجھ کو حکم کی تعمیل کر
مجھ کو تیرے لمس کی خواہش نے رکھا مضطرب
جان جاں مجھ کو تو اپنی روح میں تحلیل کر
چھوڑ دے کہنہ رواجوں کو سبھی بے سود ہے
ضابطہ زندگی کی اب نئی تشکیل کر
منتظر ہوں تیری خوشبو کا تیری تحریر کا
میرے قاصد کو مری جانب ابھی ترسیل کر
جو بھی ہو تیری رضا وہی مجھے منظور ہے
یا مجھے یکسر مٹا دے یا میری تکمیل کر