یوں ہی بے نام تعلق میں نہ مارے جاتے
اچھا ہوتا جو تیرے حسن پہ وارے جاتے
بارہا ہم نے اسے رو کے کہا ہے صاحب
دن جدائی کے نہیں ہم سے گزارے جاتے
اس لیے ہم نے جوانی کو یہاں بیچ دیا
بے نواؤں سے کہاں قرض اتارے جاتے
ڈوبنا اپنے مقدر میں لکھا تھا تنہا
کیوں نہ پھر دور سفیے سے کنارے جاتے