یُوں مجھ پے مرنا وہ میرے لئے
Poet: NEHAL GILL By: NEHAL, Gujranwalaگلی سے گزرنا وہ میرے لئے
سجنا سنورنا وہ میرے لئے
میں کیسے بھول جاؤں بے قراریاں
ہائے ہاہیں بھرنا وہ میرے لئے
گلی میں آنا ترا کسی بہانے
چھت پے چڑھنا وہ میرے لئے
مجھے دیکھ کے سنگ غیروں کے
ترا مجھ سے لڑنا وہ میرے لئے
ملنے کی جستجو دلِ بیتاب کو
ہجر سے ڈرنا وہ میرے لئے
ترا جیت جانا ہر بات میں
مگر پھر ہرنا وہ میرے لئے
جس بات سے روکے دنیا والے
ترا وہی کرنا وہ میرے لئے
مجھے کوئی بُرے جو کہہ بیٹھے
ترا اُس سے لڑنا وہ میرے لئے
مسکرانا میری خوشیوں پے
میرے غم جڑنا وہ میرے لئے
اِس قدر محبت کیوں کرتے ہو
ترا آگ پے چلنا وہ میرے لئے
کہی مار نہ ڈالے ترا پاگل پن
یوں مجھ سے مرنا وہ میرے لئے
مزاروں سے جانا نیازے دینا
سجدے سر دھرنا وہ میرے لئے
کتابیں چھوڑ کے اپنی زندگی کی
نام میرا پڑھنا وہ میرے لئے
تاریخ میں شامل ہو جائے گا
ترا عشق یُوں کرنا وہ میرے لئے
گجرات کی سوہنی کے جیسے جاناں
چناب میں ترنا وہ میرے لئے
نہال کے لئے
وہ میرے لئے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






