ُاس سے کہو کہ لوٹ آئے
کوئی راہوں میں کھڑا رہ کر انتظار کرتا ہے
اپنے دن کا سکون اور
رات کا چین برباد کرتا ہے
میں ُاسے ُبرا نہیں کہتا مگر یہ دل
بار بار ایک ہی سوال کرتا ہے
یہ بت وفائئ بڑا دکھ دیتی ہیں جاناں
کوئی اس میں جل کر خود کو راکھ کرتا ہے
کیا ُاس کی محبت سچی تھی لکی
جو اب بھی دل ُاسی کی فریاد کرتا ہے
کس کس کو جواب دوں میں اپنی ُاداسی کا
کہ یہاں پر تو ہر کوئی دسمبر کی بات کرتا ہے