فلک لیتا ہے یونہی امتحاں ہر چیز لکھی ہے
کہاں جینا ہے مرنا ہے کہاں ہر چیز لکھی ہے
کبھی بولوں تو لگتا ہے کہ میں دھرا رہا ہوں کچھ
کبھی لکھوں تو لگتا ہے یہاں ہر چیز لکھی ہے
جو چپ رہتے ہیں وہ ہم سے زیادہ ظرف والے ہیں
کہ کھولیں بھی تو کیا کھولیں زباں ، ہر چیز لکھی ہے
تمہارا پیار قسمت میں ہوا تو مل ہی جائے گا
نگاہ_ التفات_ دوستاں ، ہر چیز لکھی ہے
نہ بدلی ہے نہ بدلے گی کبھی تقدیر دنیا کی
میاں کرتے رہو آہ و فغاں ہر چیز لکھی ہے
جنہیں پڑھنا ہو پڑھ لیتے ہیں لوح و عرش کی باتیں
اگر سمجھو تو زیر_ آسماں ہر چیز لکھی ہے
اگر تم بدگماں ہو تو یہاں کچھ بھی نہیں لکھا
اگر ہو خوش گماں انور تو ہاں ہر چیز لکھی ہے