یہ آخر کس پہ مائل ہو رہا ہوں
محبت! تیرا قائل ہو رہا ہوں
میری ہستی ہی کیا ہے ایک قطرہ
مگر دریا میں شام پہو رہا ہوں
تیری نسبت سے گمنامی ہوئی گم
میں اب موضوعِ محفل ہو رہا ہوں
یہ ہی ہے شہر میں پہچان میری
میں حق ہوں پھر بھی باطل ہو رہا ہوں
چمن کا حال وہ دیکھا ہے ناصر
قفس میں آپ داخل ہو رہا ہوں