یہ بات الگ ہے کہ وہ شرمیلا بہت ہے
یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جوشیلا بہت ہے
منہ پھیر کے چل پڑتا ہے وہ راہ میں اکثر
محبوب تو پیارا ہے وہ شرمیلا بہت ہے
لگتا ہے کہ اب اس میں کوئی زہر ہے تحلیل
یہ رنگ جو اب پانی کا بھی نیلا بہت ہے
اک روز تو ہو جائے گا یہ خشک مرے دوست
ہجرت کے مہینے میں بدن گیلا بہت ہے
یہ زرد اداسی کا سماں آنکھ کے اندر
موسم یہ بھی پیارا ہے مگر پیلا بہت ہے
ڈستا ہے شب و روز مرے جسم کو وشمہ
یہ سانپ ترے ہجر کا زہریلا بہت ہے