یہ ترے حسن کا آویزہ جو مہتاب نہیں
Poet: عامر سہیل By: مصدق رفیق, Karachiیہ ترے حسن کا آویزہ جو مہتاب نہیں
کعبۂ عشق نہیں روضہ یک خواب نہیں
ایک کولاژ بناتی ہے تری خاموشی
خط انکار نہیں صورت ایجاب نہیں
کہر کی رحل پہ اور دھند کے جزدان میں وہ
اک صحیفہ ہے کہ جس پر کوئی اعراب نہیں
اک کہانی کے پس و پیش تری آہٹ ہے
گھاس کے کنج نہیں کائی کے تالاب نہیں
تیرے پاپوش مرا تکیہ ترا جسم حرم
اس سے زیادہ تو نگہ واقف آداب نہیں
آئنوں کی ہے کوئی باڑھ مرے رستے میں
سد افلاک نہیں چادر اسباب نہیں
شکل جو مجھ پہ پرستان کے در کھولتی ہے
رونق حجرہ نہیں زینت محراب نہیں
یہ زمانوں کی ادائیں یہ جہانوں کا سلوک
ایسے لوگوں سے جو اس عہد میں کم یاب نہیں
دل بہے جاتا ہے کس رو کے بہاؤ میں کہ وہ
شدت ہجر نہیں تندی سیلاب نہیں
تیری آنکھوں میں مری نیند کا تیزاب نہیں
تیرے ہونٹوں پہ مرے ہونٹ ہیں اور خواب نہیں
خون سے اٹ گئیں شاہراہیں پشاور تیری
دوش پہ دروں کے اب چادر کم خواب نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






