کاش میرے آنگن میں تری پائل شور مچائے
تریاں چوڑیاں کنکھے ہر سو تُو نظر آئے
جب میں لوٹ کے آیا کروں گھر کو
تُو پوچھے کھانا مجھے تُو ہی پانی پلائے
دن بھر کی تھکن سے جب جسم توٹ جائے
تُو چین بخشے مجھے محبت سے گلے لگائے
میرے آنسوؤں کو پونجھ کر میری آنکھوں سے
میرے درد مٹا کے مجھے تُو جینا سکھائے
میری فکر و ذکر تُو کرے تری فکر میں کروں
زندگی ساری اِسی عمل میں ہی بیت جائے
سہرا باندھ کے آؤں ترے گھر سنگ باراتیوں کے
تُو سرخ لبا پہنے دلہن بن کے میری جانب آئے
نہال دعا ہے تو بس اب اتنی سی خدا سے
یہ جو کاش ہے کاش حقیقت بن جائے