یہ رفاقتیں یہ نزاکتیں، تیرا کیا کہوں تو ہے لاجواب
حُسن ایسا نہ ہوگا کہیں، جو ہے تیرے پاس بے حساب
تیری زُلفیں ہیں چھتنار سی، تیرا چہرہ ہے کُھلی کتاب
یہ تیرا بدن، یہ تیرا شباب، جیسے بہار میں کِھلتا گُلاب
مدہوش ہو جو بھی دیکھ لے، آنکھوں میں ہے ایسی شراب
جو دیکھ لے کوئی رات کو، گُماں کرے تُو ہے مہتاب
یہ سوچ کہ ڈرتا ہوں میں، تیرا پیار ہو نہ کہیں سراب
تیری آرزو کیسے چھوڑ دوں، تو میری حسرت تو میرا خواب