یہ زندگی اُسی کے نام خیانت کیسے کریں
نہیں پاس اختیار کوئی اطاعت کیسے کریں
مجھ مدعی لیئے ان کی عدالتیں کھلی پڑی ہیں
مگر دل کے چوروں کی شکایت کیسے کریں
کون شباب دیکھ کر دھڑکنوں کو سنبھالے
بڑی قوت سے کھچے اب ضمانت کیسے کریں
تیرا گرجنا غلط کہ کثیر فضول ہیں ہم
وہ محبت کی وضع وہاں عداوت کیسے کریں
جوش طبیعت کا ملاحظہ کہ نادان بھی نکلے
بتاتے چلو بھی حضوُر کہ عبادت کیسے کریں
کئی شاد سپنے سنتوشؔ دل میں پال دیئے
وہ سامنے بھی ہیں مگر جسارت کیسے کریں