یہ شکوے تھے کہ زباں تک آ ہی نہ پاۓ
روداد اپنی ہم انھیں سنا بھی نہ پاۓ
سرد مہری کہ لفظو ں نے خو د کشی کرلی
جو بات دل میں تھی انہیں بتا ہی نہ پاۓ
یہ ناتا ادھورا سا ایک کسک بن کے رہ گیا
چپ چاپ گئے وہ آوازہم لگا بھی نہ پاۓ
اک بڑا ہی زندگی کا یہ عجیب خسارہ تھا
ہم گنواں کے انھیں پچھتا بھی نہ پاۓ
سیلاب وہ کہ روح تک بھیگی جاتی تھی
اور ہم کہ ایک اشک تک بہا بھی نہ پاۓ
تقدیر یہ کہ اک بار پھر سے وہ رو برو آ گئے
اور دیکھ کر ہم انہیں مسکرا بھی نہ پا ۓ