یہ محبت کا صلہ تھا عشق کا انجام تھا
Poet: عارف نقشبندی By: مصدق رفیق, Karachiیہ محبت کا صلہ تھا عشق کا انجام تھا
پھول کا ہنسنا ہی اس کی موت کا پیغام تھا
غم نہ دیتے آپ تو راحت سے کس کو کام تھا
زندگی کی گردشوں کے ساتھ دور جام تھا
ٹھوکریں کھاتے گئے لب پر تمہارا نام تھا
حشر کا منظر تھا راہ عشق میں جو گام تھا
آپ کیوں آنسو بہائیں میرے حال زار پر
عشق کا نکلا وہی انجام جو انجام تھا
بن گیا ہر سانس قاتل رنج ہے تو بس یہی
زندگی نے مار ڈالا موت پر الزام تھا
تھا تمہارے سامنے بے کیف رنگ گلستاں
دیدۂ نرگس تو کہنے کو چھلکتا جام تھا
دیکھنے والے کہیں گے میری بربادی کا حال
آشیانہ جل رہا تھا میں اسیر دام تھا
گریۂ شبنم سے آتی ہے گلوں میں تازگی
میرا رونا بھی کسی کے عیش کا پیغام تھا
برق کے کیا ہاتھ آیا کیا ملا صیاد کو
چار تنکوں کے نہ رہنے سے چمن بدنام تھا
جلنے والا ہی سمجھ سکتا ہے دل کی آگ کو
ہجر میں عارفؔ مرا ہمدم چراغ شام تھا
More Sad Poetry






