یہ مست ادائیں تو ذہنی جانبداری سے گذرتی ہیں
بڑی شوخ ہوائیں میری راہ گذاری سے گذرتی ہیں
ابکہ میری آوارہ ضرورت کو تنگدستی ہو رہی ہے
یہ کون سے رعنائیں جو گریہ ذاری سے گذرتی ہیں
وہ عصا کی آتشیں جو کبھی آگاہ ہی نہیں کرتی
اِس غفلت کی نیند میں گداگری سے گذرتی ہیں
یہ عیاں کمر کا داغ کس کو اس طرح منظور رہا ہے
اس احتیاج سے بھی زیادہ چھُپکاری لے گذرتی ہیں
میرے زخموں کا زوررنج آج بھی دیکھو گھیلا پڑا ہے
درزوں کی محافظیاں پھر دنیاداری سے گذرتی ہیں
اشک جھرنوں میں کنول اب مرجھا گئے ہیں سنتوشؔ
تیری بے رخیاں اتنی ناہمواری سے گذرتی ہیں