یہ نہ سوچا تھا کبھی دل کے اجالے جائیں
جان کے بدلے یہاں درد اچھا لے جائیں
میں نے ہر دشت میں چھانی ہے ترے ہجر کی خاک
کیسے پاؤں کے مری جان یہ چھالے جائیں
یہ تو ڈستے ہیں سرِ راہ تمنا دل کو
آستینوں میں کبھی سانپ نہ پالے جائیں
اس سے پہلے کہ کوئی اور چرالے ان کو
آؤ آنکھوں کے کہیں خواب بہالے جائیں
کون کہتا ہے کہ پھر حسرتیں تعمیر کریں
وہ فقیروں کی فقط آکے دعا لے جائیں
بہتا دریا ہو تری یاد کا ہر سو وشمہ
میری آنکھوں سے اگر آنسو نکالے جائیں